NATIVE

7 Ads

ایک آرزو

 

ایک آرزو

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب 


کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو 


شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا 


ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو 


مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری 


دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو 


آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں 


دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو 


لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں 


چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو 


گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا 


ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو 


ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا 


شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو 


مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل 


ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو 


صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں 


ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو 


ہو دل فریب ایسا کوہسار کا نظارہ 


پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو 


آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ 


پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو 


پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی 


جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو 


مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو 


سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو 


راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم 


امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو 


بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے 


جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو 


پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن 


میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو 


کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں 


روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو 


پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے 


رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو 


اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے 


تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو 


ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے 


بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے 

Post a Comment

0 Comments

7 ads

Native