NATIVE

7 Ads

افلاک سے آتا ہے

 

افلاک سے آتا ہے


افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 


کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر 


احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا 


سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر 


میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے 


شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر 


مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں 


لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر 


کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری 


ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر 


خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی 


چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر 


تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا 


کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر 

Post a Comment

0 Comments

7 ads

Native